سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرائے گئے وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اپیل کا حق آرٹیکل 184 III کے تحت عام قانون سازی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے، متاثرہ فریق آرٹیکل 184 III۔ نظرثانی کے علاوہ اپیل کا کوئی حق نہیں، توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے توہین عدالت کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کے لیے قانون سازی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس، پہلی بار سماعت براہ راست نشر،ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کو نقصان ہو،چیف جسٹس
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بنچوں کی تشکیل میں بہتری آئے گی، نظام کی لامتناہی صوابدیدی اختیارات سے نظام تباہ ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس ‘ماسٹر آف روسٹر ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں ہے، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح ہندوستانی عدلیہ سے ماخوذ ہے۔
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت لارجر بنچ آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کی سماعت کرے گا، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، اگر مستقبل میں کوئی قانون اس قانون پر قدغن لگاتا ہے۔ عدالت اس کا جائزہ لے گی۔ ، قانون کو اس بنیاد پر کالعدم نہیں کیا جا سکتا کہ فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہو گا، فل کورٹ غیر معمولی مقدمات میں تشکیل دی جاتی ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے ۔مسلم لیگ ن نے بھی سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔
مزید پڑھیں
فل کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت براہ راست دکھانے پر اتفاق
مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ایکٹ کے ایکٹ بننے سے پہلے اس پر عمل درآمد روکنا اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔مسلم لیگ ن نے اپنے جواب میں موقف اختیار کیا کہ عدالت ایکٹ بننے سے پہلے اس پر عمل درآمد نہیں روک سکتی، جب تک ایکٹ کالعدم نہیں ہوتا اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے
۔مسلم لیگ ن نے موقف اختیار کیا کہ قانون پر عمل درآمد روک کر منتخب نمائندوں کی نیتوں پر سوال اٹھانا بند کیا جائے۔یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے رواں سال 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عمل درآمد معطل کر دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نذیر تارڑ نے رواں سال 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا تھا جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔12 اپریل کو منظور ہونے والے بل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، ایکٹ کے خلاف دو وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے مجموعی طور پر چار درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور عدالت نے درخواستوں کو اگلے روز 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔