عدالتی حکم میں کہا گیا کہ تمام فریقین کو فیض آباد دھرنے سے متعلق حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے فریقین بیان حلفی کے ذریعے کیس سے متعلق حقائق پیش کر سکتے ہیں۔
عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ کیس میں تحریری جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائے جائیں اور کیس کی سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔
عدالتی حکم کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا اور پی ٹی آئی نے بھی الگ درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی جب کہ درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرلیا ، درخواست گزار اعجاز الحق نے پیراگراف نمبر پر اعتراض اٹھایا۔ سماعت کے دوران فیصلے میں سے 4 اور کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ درخواست گزاروں کی غیر موجودگی میں انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔ کیس میں عدالت نے ان کے نقطہ نظر کو مدنظر نہیں رکھا، فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17 کے تحت یہ موقف عدالت کے لیے حیران کن ہے۔
حکم نامے کے مطابق عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق سامنے آ کر تحریری طور پر اپنا موقف پیش کر سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا محدود مدت کے لیے تھا اور اس کا دائرہ کار وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔
134