پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ اور سہولیات کے فقدان میں بھی پہلے نمبر پر ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پورے ملک کو سوئی گیس فراہم کرنے والے صوبے کے اپنے باسیوں کو اس نعمت سے محروم رکھا گیا ہے جس بنا پر کچھ ترقی پسند اور پڑھے لکھے بلوچوں نے جب اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا شروع کیا تو انکو غائب کرنے میں ہماری محترم ایجینسیز کو رتی برابر شرم اور خوف نہیں آیا کہ وہ کس طرح سے اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے رقبے والے صوبے کے باسیوں کو اغواء کر رہے ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ اس ملک میں 1947 سے لیکر اب تک طاقت کے حصول کیلئے ہمارے معتبر ادراوں میں کھینچا تانی جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گی۔بلوچستان کو حدود اربعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کی بہترین بندرگاہ گوادر یہاں موجود ہے جسکے گہرے نیلے پانیوں میں بڑے سے بڑا بحری جہاز بلکل کنارے پر لنگر انداز ہو سکتا ہے جسکے نتیجے میں نہ چھوٹی کشتیوں سے ساحل تک سامان لانا پڑے گا اور کرایے کی شکل میں پیسے بچیں گے۔اور گوادر بندرگاہ اگر فعال ہوتی ہے تو خلیجی ممالک کی بندرگاہوں کی اہمیت کم ہو جائے گی اسی لیے خلیجی ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور انکے پاس پیسے کی بہتات ہے تو اس ملک کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے ان ممالک کے بچے جمورے بننے کیلئے ہمارے مخافظان وطن پیش پیش ہیں اور یہ کام بیرونی طاقتوں کیساتھ ملکر اپنے چند روپوں کی خاطر احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔بلوچوں کو شروع سے ہی انکے حقوق سے محروم رکھا گیا بلوچ سردار جو سالانہ اپنی زمینوں سے نکلنے والے گیس اور کوئلوں سے کروڑوں کی سبسڈی لیتے ہیں انہیں ان لوگوں کی مشکلات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے انہوں نے تو بس انکو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اور ان سرداروں کو ہماری ایجینسیاں اور پاک فوج کے کچھ سرکردہ افسران کی آشیر باد حاصل ہے۔بلوچستان میں ڈیوٹی پر موجود ایک کیپٹن صاحب کو ایک خیراتی ادارے کی جانب سے ڈیوٹی پر معمور لیڈی ڈاکٹر پسند آئی تو ان سے راہ و رسم بڑھانے کیلئے کوشش کی جب بات نہ بن پائی تو اسکا ریپ کر دیا گیا جب یہ بات بگٹی قبیلے کے سردار اکبر بگٹی کو پتا چلی تو انہوں نے اس کپتان کی حوالگی کیلئے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا تاکہ اسے نشان عبرت بنایا جائے کیونکہ وہ ڈاکٹر بلوچوں کی سرزمین پر مہمان تھی اور بلوچ قوم بہت مہمان نواز ہے تو یہ ایک لحاظ سے انکی غیرت کو للکارا گیا تھا لیکن بجائے اس بے قصور ڈاکٹر کو انصاف دینے کے ہمارے بہادر جوانوں نے اکبر بگٹی کے خلاف ہی آپریشن شروع کر دیا اسوقت کے ڈکٹیٹر نے اپنی ایک تقریر میں للکار کے کہا تھا "کہ جب بم مارا تو وہ دوڑ گیا اور پہاڑ پر چڑھ گیا” ہونا تو چاہیے تھا کہ فوج اپنے ادارے میں موجود ناسور کو ختم کرتی انہوں نے بگٹی قبیلے کے سردار کو ہی میزائلوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔عوام کو ہمیشہ پڑوسی ملک کی مداخلت کا چورن چٹا کر اس صوبے کے وسائل پر قابض رہنے کی دل و جان سے محنت جاری و ساری ہے یہی محنت اگر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کی جائے تو بلوچستان میں بہت حد تک بہتری آ سکتی ہے۔اب جو بھی بلوچ اپنے بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھاتا ہے اسے غائب کرنا ہمارے ادارے اپنا فرض سمجھتے ہیں اور پھر غیر قانونی گرفتاریوں کے دوران انسانیت سوز مظالم کی نہ ختم ہونے والی داستان شروع ہوتی ہے۔ہمارے اداروں کا المیہ ہے کہ انہوں نے صرف طاقت سے آوازوں کو کچلنا سیکھا ہے اور اس طاقت کے نشے میں چور بد مست ہاتھی نے جانے کتنے ہی ہیرے اس زمین سے غائب کر دیے جنہوں نے آگے چل کر اس ملک کا نام روشن کرنا تھا اسی طاقت کے نتیجے میں پڑھے لکھے بلوچ طلباء وطالبات خود کش بمبار بننے پر مجبور ہوئے تاکہ ان بدمست ہاتھیوں کو سبق سکھایا جا سکے لیکن انکو شاید یہ معلوم نہیں کہ انکے ضمیر مر چکے ہیں اسی لئے عوام بہتری کی خواہش تو کر سکتی ہے مگر شائد پاکستان میں دیکھ نہیں سکتی
369